محمود کیفی ۔۔۔ پتّھروں میں گُلاب دیکھتا ہوں

پتّھروں میں گُلاب دیکھتا ہوں
اپنی مرضی کے خواب دیکھتا ہوں

آنکھ سے وہ دِکھائی دیتا نہیں
دِل سے میں بے حساب دیکھتا ہوں

تِیر و تلوار دیکھ تُو ظالِم
میں قلم اور کِتاب دیکھتا ہوں

تُو بھی کر میرے سب گُناہ شمار
میں بھی تیرا ثواب دیکھتا ہوں

دیکھتا ہے تُو شب میں تاریکی
اور میں ماہتاب دیکھتا ہوں

ایک اندھے نے ڈرتے ڈرتے کہا
دیکھتا ہوں ، جناب دیکھتا ہوں

جِسم پر دیکھتا ہوں میں پِیری
خواہشوں پر شباب دیکھتا ہوں

تُو عداوت کے در بناتا ہے
میں محبت کے باب دیکھتا ہوں

دیکھتا ہوں میں کائنات کو یوں
جیسے کوئی کتاب دیکھتا ہوں
اُس کے دِل میں بھری ہے آتشِ غم
اُس کی آنکھوں میں آب دیکھتا ہوں

دِید کا اِک سوال ہیں آنکھیں
اُس کا چہرہ جواب دیکھتا ہوں

کب حقیقت میں دیکھتا ہوں اُسے
میں تو بس اُس کے خواب دیکھتا ہوں

راہِ حق میں جو جان ہارتا ہے
میں اُسے کامیاب دیکھتا ہوں

تُو نے دُنیا کہا جسے کیفی!
میں اُسے اک سراب دیکھتا ہوں

Related posts

Leave a Comment